کئی دنوں سے پلکیں تھی منتظر تمہاری
ابکہ آنکھیں بن گئی ہیں سمندر ہماری
سکون کے سرانے ہیں حوصلوں کے پیچھے
دکھ کی راتیں تو ہیں پل بھر ہیں ہماری
کس کروٹ سے آہ بھرکے پوچھیں کہ
کہاں اڑ گئی ہے آج نندر ہماری
احراموں سے عبادتگاہوں تک دیکھو
یہ سوچیں بھی مسجد مندر ہماری
سبھی راستے صراط مستقیم تو ہیں مگر
منزلیں تو ہمیشہ رہی ہیں منتظر ہماری
ویسے تو تمہاری خیال میں ڈوبی رہی
لیکن کتنی تھی وہ سوچیں سُندر ہماری
کیوں ڈھونڈنے چلے ہو زمانے میں انہیں
خوشیاں تو پڑی ہیں سب اندر ہماری