کاش واپس میری کشتی کا سوار آ جاتا
وہ جو آ جاتا مرے دِل کو قَرار آ جاتا
اِس سے بڑھکر کوئ ہوتی نہ مُجھے اور خُوشی
اُس کے دِل میں جو مرے جیسا ہی پیار آ جاتا
کُچھ تو ہو جاتی تَسلی میرے پاگل دِل کو
کہ اگر خواب میں ہی مِلنے کو یار آ جاتا
یہ جو نیند آئ نہیں مُجھ کو کئ برسوں سے
اُس کا دیدار جو مِل جاتا خُمار آ جاتا
اُس کو فُرسَت ہی نہیں مِلتی ہے باقرؔ ورنہ
مُجھسے مِلنے وہ سَمَندر سے بھی پار آ جاتا