کاش کہ کبھی حَد میں رہے ہوتے
آج کہاں کسی ضِد میں رہے ہوتے
یہ صدائیں بھی اس طرح نہ بڑھتی
اگر پُکار کی شد میں رہے ہوتے
کلیاں ہی کہیں سانسیں مہکادیتی تو
پھول یونہی اپنی حَد میں رہے ہوتے
کون کسی کا یہاں بھلا چاہتا ہے
ہم صدائے یوں رَد میں رہے ہوتے
حُسن رخسار کچھ اور بھی بڑھتا
تل چہرے کی خد میں رہے ہوتے
مگر جو ہوا وہ ہوکے رہہ گیا
اب کیا کہنا کہ بَد میں رہے ہوتے