کبھی جو ہم فراغت میں کہیں بیٹھے اکیلے ہوں
مناظر سب حسیں ہوں اور کچھ نغمے سریلے ہوں
کوئی بلبل کسی شاخ شجر پر گںگںاتا ہو
نہاتے پھول شبنم میں تروتازہ سجیلے ہوں
ندی تصویر لے لے کر ہمیں دکھلائے جاتی ہو
ہوا کی جھولیوں میں جھومتے پودوں کے جھولے ہوں
درختوں کا ہو سایہ صرف سبزے کا بچھوںا ہو
ہوا ہلکی رواں دریا ہو اوںچے پیڑ ٹیلے ہوں
نہ ہو کوئی پریشانی نہ یادیں ہوں کسی غم کی
بڑے ہی دور ہم سے سب یہ دنیا کے جھمیلے ہوں
فسانے چھیڑ ڈالیں گل ہمارے سامنے رنگیں
ادائیں دیکھ کر بےتاب دل کے تار ڈھیلے ہوں
ہوا نزدیک سے گزرے تو یوں محسوس ہو نوشی
کہ گویا ہم کو چھوںے کے بہانے ہوں یا حیلے ہوں