کبھی سہمی سہمی فضاؤں میں
کبھی بہکی بہکی رداؤں میں
تیری راہ کو رہا ڈھونڈتا
کبھی دھوپ میں کبھی چھاؤں میں
وہ خیال تیرے وصال کا
وہ خیال گزری بہار کا
سدا پھول بن کے کھلا رہا
میری زندگی کی خزاؤں میں
میری بے وفائی نہیں ہے یہ
میں تو گردشوں کا غلام ہوں
میری بے بسی کی ہیں سسکیاں
جو تو سن رہا ہے ہواؤں میں
ہے تو آفتاب میں پھول ہوں
سورج مکھی کا کھلا ہوا
میری زندگی کا وجود ہے
تیری الفتوں کی شعاؤں میں
تیری مسکراہٹیں شوخیاں
تیرا روٹھنا تیرا ماننا
دنیا کی ساری رنگینیاں
ہیں تیری معصوم اداؤں میں