کبھی ہم قدم تھے میرے بہاروں کے قافلے
ایک حسین خواب کا محور تھی زندگی
ہم جاگتے تھے رات دن تیرے خیال میں
کچھ بھی تو فرق نہ تھا ماہ اور سال میں
لکھتے تھے چاندنی میں غزلیں کبھی کبھی
تو ساتھ تھا تو ہم کو پیاری تھی زندگی
اڑتی تھیں ہم کو لے کر گلشن میں تتلیاں
کرتے تھے رنگ و نور سے خوشبو سے مستیاں
اب تو نہیں ہے ساتھ تو گلشن اداس ہے
اب چاند بھی نہیں ہے، نہ بجھتے دیئے کی لو
اب تیرے انتظار کے موسم ہیں اور میں
خزاں اور خار کے موسم ہیں اور میں
بانہوں میں ایک دردِ محبت ہے اور میں
آنگن میں دوڑتی ہوئی یادوں کے قافلے
بچھڑے ہوئے ہیں کب سے بہاروں کے قافلے
اب کھو دئیے ہیں میں نے ستاروں کے قافلے
تنہائیاں ہیں میرے ہمرکاب لوٹ آ
اے مرے ہمدرد میرے یار لوٹ آ
اک بار لوٹ آ