کبھی یادوں کے ساحل پر تمہارا نام لکھتے تھے
عجب ذوقِ جنوں تھا ہم صبح کو شام لکھتے تھے
کبھی ہم بھی تھے تیرے حسنِ بے خود کے قصیدہ خواں
تری مستی بھری آنکھیں چھلکتا جام لکھتے تھے
تجسس ہی تجسس تھا فقط عنوانِ ہستی میں
تمہاری یاد کے موسم تمہارے نام لکھتے تھے
تمہارے ہی خیالوں میں گزاری ذندگی اپنی
دلِ وحشی کو اس بستی میں زیرِ دام لکھتے تھے
تجھے دیکھا تو یاد آیا کبھی ہم بھی سخنور تھے
تری باتیں خیالوں کے نگر میں عام لکھتے تھے
مقامِ عشق میں اب راستے دشوار ہیں جاناں
کبھی راوی ہمارے بخت میں آرام لکھتے تھے
دیا ہے امتحاں یہ درس گاہِ عشق و مستی میں
در و دیوار پر اکثر تمہارا نام لکھتے تھے
رقم تھا اک وہی غم بس مرے قرطاسِ ہستی پہ
وہی وحشت وہی شدت کہ ہر اک گام لکھتے تھے
نثار ہم ہی سمجھ پائے نہ خود دیوانگی اپنی
کہ جذبہء جنوں کو جذبہء بے نام لکھتے تھے