کبھی یوں بھی ہو کہ
موسموں کے رنگ سبھی اطراف میں چاروں طرف
منجمد ہو چلیں
یادوں کی بدلیاں سوچوں کی تتلیاں
ملجگی شامیں سبھی
دھندلکی راتیں کبھی
چہچہاتی گنگناتی صبحیں سبھی
کبھی یوں بھی ہو چاہتوں کی مالا کی مہکتی خوشبوئیں
بانہوں میں سمٹی ٹیسیں جدائی کے سینے پر سر دھرے چلتی رہیں
فرقت و الم کے آثار سب پیوست ہوں یوں روح میں
گردش لہو کی یوں تھم چلے
کبھی یوں بھی ہو کہ بہتالہو احساس سا سرد ہونے لگے
جذبے سبھی جستجو کی تگ و دو میں
دھڑکن سے رو ٹھ چلیں
گویا بے رحم حسینہ عشق کے عروج پہ
بھرم وفا کے توڑے دے
کبھی یوں بھی ہو کہ وقت بہے لمحے چلیں
ہم مگر سرد خانے میں پڑے باندھ کے تلازم نوید سحر سے
چھڑا کے باگیں سانسوں کے سرپٹ قہر سے
گزشتہ سے قطرہ قطرہ پگھلتے رہیں
برف ہوتی ساعتیں
لمحوں کی سل پہ ایڑیاں رگڑ رگڑ
صدیوں کا پردہ چاک کرتی رہیں
بچے کچھے حالات میں ہم جیتے رہیں
کبھی یوں بھی ہو کہ
کبھی یوں بھی ہو کہ