کتنا غافل ہے مجھے اچھا سمجھنے والا
کیا بسائے گا مجھے خود ہی اجڑنے والا
کیا تماشا ہے کہ میں اس پہ بگڑ بیٹھا ہوں
وہ جو مشہور ہے لوگوں میں بگڑنے والا
زندہ رہنے کا سبب کیا ہے یہ دل سے پوچھ
جز تیرے اور نہیں کوئی دھڑکنے والا
ناو ڈوبی میری کرتے ہوئے دیدار تیرا
اور تیرا نام ہی لیتا تھا ابھرنے والا
تیری وجہ سے ہی لڑتا ہوں زمانے بھر سے
میں ہوں مشہورزمانے میں جھگڑنے والا
کیسی آنکھیں ہیں وہ ظالم کی سمندر جیسی
کتنا روشن تیرا چہرہ ہے چمکنے والا
تمہیں معلوم ہے کون لکھے گا یہ غزل
آپ کے عشق میں ہر وقت تڑپنے والا