آگ جب سے لگی نشیمن کو
کتنے ویران ہو گۓ ہیں گھر
ہاتھ شل ہو گۓ ہیں لوگوں کے
اپنے پیاروں کے لاشے ڈھو ڈھو کر
موت سے کب فرار حاصل ہے
بند ہیں زندگی کے سارے در
صف ماتم بچھی ہے گھر گھر میں
آج ہر آنکھ ہو رہی ہے تر
موت کو موت ہی نہیں آتی
ڈونڈھ لیتی ہے روز کتنے گھر