کسی حسیں دل نشیں صنم کی ستائے رکھتی ہے یاد اکثر
نہ آنے دیتی ہے نیند مجھ کو جگائے رکھتی ہے یاد اکثر
ہمارا ماضی اترا رہا ہے کٹار بن کر ہمارے دل پر
خیالِ ماضی نقوشِ ماضی سجائے رکھتی ہے یاد اکثر
گلابی ہونٹ اور سرخ چہرہ وہ مے سے لبریز اس کی آنکھیں
ہیں جب سے دیکھی مثالِ شمع جلائے رکھتی ہے یاد اکثر
جو کر لیا میں نے اس کو حاصل زمانے بھر کو عدو بنایا
یہی ذہن میں نا جانے کیوں کر بسائے رکھتی ہے یاد اکثر
وہ ڈر سے گھبرایا اس کا لہجہ مگر دلیرانہ گفتگو جو
ہنسا کے جاتی ہے اور کبھی تو رلائے رکھتی ہے یاد اکثر