کسی سے بھی نہیں الجھا کریں گے
چلو ہم آج سے ایسا کریں گے
ہمیں ہر حال میں منزل کی دھن ہے
ہر اک دیوار کو رستا کریں گے
ہم اپنی پیاس پر پہرے بٹھا کر
ترے صحراؤں کو دریا کریں گے
مبارک ہوں تمہیں مانگی شرابیں
ہم اپنا خونِ دل صہبا کریں گے
خود اس کے ہاتھ پر لکھیں گے خود کو
لکیروں پر بھروسہ کیا کریں گے
نہیں بیچیں گے اپنے لفظ انور
جو سوچیں گے وہی لکھا کریں گے