طوفان کے پرلے پار کا نظارہ ملے گا کہ نہیں
زیست کی ڈوبتی ناؤ کو کنارہ ملے گا کہ نہیں
کب تلک یہ وارث رہیں گے لا وارثوں کی طرح
کوئی بتائے ہم کو ،حق ہمارا ملے گا کہ نہیں
زندگی نے تو در سے ہمیں کر دیا در بدر
اے موت تیری آغوش میں بھی سہارا ملے گا کہ نہیں
کوئی تو میرے سوال کا دے دے جواب مجھے
وہ آسماں سے ٹوٹا ہوا ستارہ ملے گا کہ نہیں
ہم مایوس نہیں مولا پھر بھی منتظر ہیں یہ نگاہیں
تیری بے آواز لاٹھی کا اشارہ ملے گا کہ نہیں
شام ہو گئی ہے امتیاز اب تو گھر کی راہ لو
کیا خبر وہ پاگل، دیوانہ، وہ آوارہ ملے گا کہ نہیں