کوئی سورج مرے اندر تو نہیں ہو سکتا
"دھوپ سے خشک سمندر تو نہیں ہو سکتا"
تو جو بکھرا ہوا پھرتا ہے بیابانوں میں
تری سوچوں میں قلندر تو نہیں ہو سکتا
وہ مری سوچ میں اترے تو مرا ہو جائے
میں وہ قسمت کا سکندر تو نہیں ہو سکتا
راہ میں آج تو مسجد بھی ہے میخانہ بھی
پھر بھی چاہت کا وہ مندر تو نہیں ہو سکتا
ایک ویران جزیرہ سا ہے آنکھوں میں مری
خشک سوتوں میں سمندر تو نہیں ہوسکتا