عشق گر تجھ کو نہیں ڈر کیا
یہ بھٹکنا ترا در در کیا ہے
موت بچوں کا کوئی کھیل بنی
زندگی، تجھ سے بچھڑ کر کیا ہے
چند چیزیں جو ڈسا کرتی ہیں
اور اس تن کو میّسر کیا ہے
زندگی موت سے بڑھ کر کیوں ہو
زندگی موت سے بہتر کیا ہے
دل ہو تنہا تو بلا سے دل کی
چاہے میلا ہو یا مہشر کیا ہے
بیقراری نہیں گر دل میں کوئی
جھیل میں پھینکنا پتھر کیا ہے
عاشقی نام ہے دربدری کا
ہوگیا کوئی جو بے گھر کیا ہے
اب کوئی صدمہ نہ پہنچے دل کو
تو نہیں ساتھ تو مہشر کیا ہے
کوئی نازک سا بدن کیا چھوتے
دیکھنے ہی کو میّسر کیا ہے
کوئی محبوبہ خفا ہو جائے
اور اشعار کا جوہر کیا ہے
ایک دن سب نے فنا ہونا ہے
یہ زمیں کیا ہے یہ امبر کیا ہے
ماہ و سال آتے ہیں کٹ جاتے ہیں
تجربہ ہی نہ ہوا گھر کیا ہے
ہے اگر وقت تو پھر سر پہ ندیم
برف گرنے کا یہ منظر کیا ہے