کچھ بھی نہ رہے باقی گر روٹھ جائے ساقی
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillکلیوں میں بہاروں میں
پھولوں میں نظاروں میں
گلشن میں وادیوں میں
چندا میں ستاروں میں
مخمور فضاؤں میں
مے میز گھٹاؤں میں
رنگین درختوں کی
پر کیف قطاروں میں
خوشبو میں کونپلوں میں
رنگوں میں تتلیوں میں
کرنوں میں چاندنی میں
سورج کی روشنی میں
کھیتوں میں پہاڑوں میں
جلوؤں کے شماروں میں
صحراؤں میں دریا میں
فطرت کی ہر ادا میں
مسکان میں آہوں میں
رنگین پناہوں میں
آغوش میں وسعت میں
ان ریشمی بانہوں میں
انجاں مسافتوں میں
آراستہ راہوں میں
عریاں حقیقتوں میں
پنہاں محبتوں میں
تقدیر میں معنی میں
بے انت کہانی میں
بہتی ہوئی ندی میں
بپھرے ہوئے پانی میں
عمروں کی روانی میں
پر جوش جوانی میں
ساغر میں پیالے میں
مدہوش اجالے میں
مسحور گلابوں میں
چنبیلی میں لالے میں
مانوس خیالوں میں
ان دیکھی چاہتوں میں
آوارہ خلوتوں میں
گیتوں میں راحتوں میں
سوچوں کے دائروں میں
خوابوں میں خیالوں میں
اشعار میں لفظوں میں
نکتوں میں کنایوں میں
کچھ بھی نہ رہے باقی
گر روٹھ جائے ساقی
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






