کچھ حسیں خواب زندگانی میں
ڈھونڈتا میں رہا جوانی میں
اُس کے خط آج میں جلا آیا
غم کو رکھتا نہیں نشانی میں
آنکھ سے اشک یوں بہاتا ہوں
جیسے لگتی ہے آگ پانی میں
اب جدائی بہت ضروری ہے
روگ پُورا ہو اِس کہانی میں
غم کا دریا بھی پار کرنا ہے
شعر کہہ کہہ کے روانی میں
زندگی ٹھہر جا ذرا سی دیر
کیا کروں گا میں لا مکانی میں
کس طرح دل کو اب سکون ملے
محو ہوں یاد اِک پُرانی میں