کھول خط ڈاکیا کہ کوئی جَیَد بھی نکلے
کہیں حرف تلفظ سے شاید دید بھی نکلے
اِس جہاں کی چلن سے اُس کی نہیں بنی
ہجوم سے روٹھا وہ شخص جَرِید بھی نکلے
اُس کے جانے کے بعد آسودگی کہاں ملی
اب کوئی لمحہ میرے لیئے عید بھی نکلے
محبت کا تو ہر پہلو مقروض رہا ہے
دلوں کا یہ سودا کہیں مفید بھی نکلے
منتظری کے آغوش میں کب تک رہوں سنتوش
اس کے آنے کی کوئی امید بھی نکلے