کہانی اپنے عنوان سے ہٹ گئی ہے
ایک محبت تھی جو اب بٹ گئی ہے
بہت دور تک تھا سلسلہ رابطوں کا
تعلق کی وہ ڈور الجھ کر ٹوٹ گئی ہے
میرے سامنے سب اپنے صف بستہ کھڑے ہیں
زنجیر خود میرے قدموں سے لپٹ گئی ہے
ہر کوئی چلتی پھرتی لاش دکھائی دیتا ہے
جینے کی خواہش میں زندگی لٹ گئی ہے
چاہتے ہیں سب اپنی خواہشوں سا خالد
جس میں رہے سب وہ کائنات پلٹ گئی ہے