کہاں ہیں نانیاں اور دادیاں گزرے زمانے کی
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Pakistanیہ بوڑھے لوگ پہلی سی جوانی کو ترستے ہیں
بیچارے عمر کے صحرا میں پانی کو ترستے ہیں
کہاں ہیں نانیاں اور دادیاں گزرے زمانے کی
کہ بچے سونے سے پہلے کہانی کو ترستے ہیں
پیچیدہ ہو گئی ہے زندگی اس دور میں سب کی
گھرے جو مشکلوں میں تو آسانی کو ترستے ہیں
اشارہ آپ کی آنکھوں کا مبہم تھا سمجھتے کیا
ذرا ہم پر وضاحت ہو کہ معنی کو ترستے ہیں
رہا نہ اب کوئی پردہ حقیقت جان لی ہم نے
دروں سے ہو گئے واقف حیرانی کو ترستے ہیں
سخن بہتے ہوئے دریا کی طرح کاش کہہ سکتے
غزل میں میر سی زاہد روانی کو ترستے ہیں
More Love / Romantic Poetry






