کہاں یہ مانگتے ہیں زندگی تمام کرو
بس ایک شام ہی جاناں ہمارے نام کرو
اب اور ہجر میں ہم سے جلا نہیں جاتا
گو خواب میں ہی سہی یار پر کلام کرو
یا آؤ لوٹ کے پھر سے ہماری دنیا میں
وگرنہ مٹی ہماری کا انتظام کرو
ہمارے شہر میں پھر سے وباءِ ہجراں ہے
ہمارے شہر میں پھر سے شراب عام کرو
نہ میکدے سے مجھے روز اٹھا کے لایا کرو
شریف لوگ ہو تم تو نہ ایسے کام کرو
مجھے خلوص بھی اتنا پسند نہیں یارو
ہر ایک موڑ پہ مجھ کو نہ تم سلام کرو
اے میرے دل نہ اسے یاد کر کے رو اب تُو
یہ تم سے کس نے کہا تھا کہ ایسے کام کرو
یہ بات ذہن میں رکھ کر تم آنا میخانے
دے جام دشمنِ جاں بھی تو احترام کرو
ہاں یہ بھی شامل آدابِ میکدہ میں ہے
کہ ایک سانس میں ہی خالی سارا جام کرو
زمانہ جس کو پُکارے ہے میکدہ باقرؔ
یہی فقیر کا دَر ہے یہیں قیام کرو