کہنے کو تو میں کوئی اوج اٹھائے پھرتا ہوں
مگر بے جا خلشوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہوں
یہ ہواخوری بھی کوچے سے کچھ باہر نہیں
رغبت طبیعت کا جیسے روگ اٹھائے پھرتا ہوں
جہاں بھی داؤ گھاؤ میں سبقت نہ ملی
اُسی پیش روی کا دروغ اٹھائے پھرتا ہوں
دل کے چراغ جلتے ہیں اور بجھتے ہیں
یونہی کچھ خیالوں کی کھوج اٹھائے پھرتا ہوں
اگر بحر چھلکتا تو غم بھی اتار لیتے کہیں
جس نین سے پائی وہ موج اٹھائے پھرتا ہوں
میری منزل کا پتہ کس لکیر میں چھاگیا
کئی دنوں سے سنتوشؔ یہ سوچ اٹھائے پھرتا ہوں