کہنے کو تو میں کوئی اوج اٹھائے پھرتا ہوں

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

کہنے کو تو میں کوئی اوج اٹھائے پھرتا ہوں
مگر بے جا خلشوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہوں

یہ ہواخوری بھی کوچے سے کچھ باہر نہیں
رغبت طبیعت کا جیسے روگ اٹھائے پھرتا ہوں

جہاں بھی داؤ گھاؤ میں سبقت نہ ملی
اُسی پیش روی کا دروغ اٹھائے پھرتا ہوں

دل کے چراغ جلتے ہیں اور بجھتے ہیں
یونہی کچھ خیالوں کی کھوج اٹھائے پھرتا ہوں

اگر بحر چھلکتا تو غم بھی اتار لیتے کہیں
جس نین سے پائی وہ موج اٹھائے پھرتا ہوں

میری منزل کا پتہ کس لکیر میں چھاگیا
کئی دنوں سے سنتوشؔ یہ سوچ اٹھائے پھرتا ہوں

 

Rate it:
Views: 349
06 Feb, 2011