کہیں شمر سے نسبتیں تو نہیں ہیں
Poet: ابنِ مفتی By: سید اے مفتی, houstonزمٰیں کھینچئے ، آسماں کھینچئے گا
کسی سر سے مت سائباں کھینچئے گا
کرو روح ، اسوار اپنے بدن پر
تنفس کا پھر کارواں کھینچئے گا
کہ مرغولہ ٹوٹا ہوا دل بنادے
اِس انداز سے یہ دھواں کھینچئے گا
جو معدوم امید ہی ہوگئی ہے
تو آہ دل ناتواں کھینچئے گا
اگر ڈوبنے کو ہے سانسوں کی کشتی
طنابیں بھی ، تب رائگاں کھینچئے گا
جو اک چھت تلے ساتھ ممکن نہیں ہے
میاں ، پھر خطِ درمیاں کھینچئے گا
نشانے پہ مجھ کو کھڑا کیجئے گا
نگاہوں سے پھر یہ کماں کھینچئے گا
پڑاؤ کو ہے دل کا ویران خانہ
یہ چلّے بھی سارے وہاں کھینچئے گا
کہیں شمر سے نسبتیں تو نہیں ہیں
جو ، اب کان سے بالیاں کھینچئے گا
ملاتے رہو پہلے نقطوں سے نقطے
بڑا سا ، پھر اک دائرہ کھینچئے گا
ڈرو نہ ہوا کے تھپیڑوں سے ہر گز
جہاں تک چلے بادباں کھینچئے گا
میں جیسے ہی دوں سجدہ ء آخری
بھلے لاش یاں سے وہاں کھینچئے گا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






