زمٰیں کھینچئے ، آسماں کھینچئے گا
کسی سر سے مت سائباں کھینچئے گا
کرو روح ، اسوار اپنے بدن پر
تنفس کا پھر کارواں کھینچئے گا
کہ مرغولہ ٹوٹا ہوا دل بنادے
اِس انداز سے یہ دھواں کھینچئے گا
جو معدوم امید ہی ہوگئی ہے
تو آہ دل ناتواں کھینچئے گا
اگر ڈوبنے کو ہے سانسوں کی کشتی
طنابیں بھی ، تب رائگاں کھینچئے گا
جو اک چھت تلے ساتھ ممکن نہیں ہے
میاں ، پھر خطِ درمیاں کھینچئے گا
نشانے پہ مجھ کو کھڑا کیجئے گا
نگاہوں سے پھر یہ کماں کھینچئے گا
پڑاؤ کو ہے دل کا ویران خانہ
یہ چلّے بھی سارے وہاں کھینچئے گا
کہیں شمر سے نسبتیں تو نہیں ہیں
جو ، اب کان سے بالیاں کھینچئے گا
ملاتے رہو پہلے نقطوں سے نقطے
بڑا سا ، پھر اک دائرہ کھینچئے گا
ڈرو نہ ہوا کے تھپیڑوں سے ہر گز
جہاں تک چلے بادباں کھینچئے گا
میں جیسے ہی دوں سجدہ ء آخری
بھلے لاش یاں سے وہاں کھینچئے گا