کہیں مفلسی کہیں مدھوشی یہ حرارتیں بھی بہت ہیں
خارج از بحث یوں سخی شرارتیں بھی بہت ہیں
تیری منزلیں اگر کہیں قابل فہم لگیں تجھے
تو رسائی لیئے خیالوں کی وسعتیں بھی بہت ہیں
سبھاؤ سے اکثر صوُرتیں ابھرتی ہیں سبھی
ورنہ چہروں کے پیچھے بے مروتیں بھی بہت ہیں
گہری ہے یہ دنیا سوچنا الجھاؤ نہ آ ٹھہرے کبھی
ارد گرد زمانے کی دیکھو رفاقتیں بھی بہت ہیں
سنجوگ تو بس ایک حادثے کے سواء کچھ بھی نہیں
میری تقدیر میں واللہ رکاوٹیں بھی بہت ہیں
کسی کو تشویش دکھ تو کسی نے آرزو کی اپنی
یہاں بتوُں کے آگے بیوستہ عبادتیں بھی بہت ہیں