کہ جب تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
جانے کیوں تو اپنا سا لگا تھا
دل میں پھوٹی تھی مسرت کی کرن
سامنے بیٹھی ہو جیسے تو دلہن
دیکھتے دیکھتے حالات نے کروٹ بدلی
حسن عنایت نے بھی یوں کروٹ بدلی
تو جسے اپنا غم خوار سمجھ بیٹھی ہے
وہ وحشت لوگ ہیں تیرے پرستار نہیں
دن کے ہنگاموں میں تو نا سمجھ پائے گی
رات کی تنہائی میں مگر اک صدا آئے گی
تو نے الفت کے تقاضوں سے بغاوت کی ہے
اک پاکیزہ محبت سے بغاوت کی ہے
میں غریب نادان تجھے کیا دونگا
نہ ذر، نہ تاج نہ مختار دونگا
شاہد ہے میرا خدا میں نے تجھے چاہا ہے انور
ساری دنیا ہے گواہ میں نے تجھے چا ہا ہے انور