کیا بتاؤں آج کیوں میں خاموش بیٹھاہوں
پرانی یادوں کو کرکےفراموش بیٹھاہوں
مجھےکسی کےآنے کا انتظار بھی نہیں
حسب معمول پھر ہمہ تن گوش بیٹھاہوں
اس کی تصویرسےباتیں کرتےشب گزری
اب انہی کےنشےمیں مدہوش بیٹھاہوں
تیرےشہر میں اصغرکو کہیں پناہ نہ ملی
سڑک کنارےصورت خانہ بدوش بیٹھاہوں