بشوق گفتار میں سارے راز کہہ دیے آج اسے اب تو توکل پر ہے دل کہ وہ رازدار نکلے اب یہ مسلک عشق ہے جی کیا کرے کوئی کہتے بھی نہ بنے چھپ رہتے بھی نہ بنے اب رباب