کیا پوچھتے ھو بخش کے ویرانیاں مجھے
پوچھو کہ کیا نہیں ھیں پریشانیاں مجھے
چھیڑوں جو پھر سے تیرے خیالوں کی راگنی
جانے کہاں رلائیں گی بے چینیاں مجھے
لہروں کی مثل پھینک کے ساحل پہ بار بار
لوٹیں تو کھینچ لائیں گی ناکامیاں مجھے
اب کے عدو بھی دیکھتے ھیں میری بے بسی
کیا کیا نہ گل کھلائیں گی نادانیاں مجھے
کہتے ھیں میں فراق کے قابل نہ تھا کبھی
ہنس ہنس کے یہ سنائیں گی ویرانیاں مجھے
طاہرمیں کھو تو جاؤں کسی اور راہ میں
گر پھر نہ ڈھونڈ لائیں پشیمانیاں مجھے