دل پر قابو پانے کا ارادہ کیا ہے
نہ ہو خوش کہاں وعدہ کیا ہے
تجھ درویش کا کیا دنیا سے بھلا
تم نے اک ذات کا لبادہ کیا ہے
ہماری بھی نظر کا کمال دیکھو
ایسی پڑی فقیر کو شہزادہ کیا ہے
ملال ہے تمہیں کیا بوجھ اٹھا رکھا ہے
کیا تم نے بھی پیار کچھ زیادہ کیا ہے
دل دکھایا جب شروع کی بات اس نے
اور کہتا ہے بیاں اس نے سادہ کیا
ہوا خوشبو کو اڑ لیے جا رہی تھی
ہم نے بھی خوب اس کا ارادہ کیا