کیوں تو ان کے قریب گئی کہ وہ اپنا حال بتاتے ہیں
تجھے تو تیرے غم سے گلہ کہ لوگ مجھے اب ستاتے ہیں
احساسوں کو چھوکر بھی مہربانیوں سے مکر گئی آج
بے رخی میں بے وجہ پھر آہیں ارمان اٹھاتے ہیں
دل میں دغا کی جگہ رکھی کہ کوئی بیٹھے تو برباد کروں
اسی ہی انا کے بچھڑے مسافر اب کہاں گھر بناتے ہیں
ہر سوچ کا سانس گہرا تجھے پگلی پتہ ہی نہیں
تیری یادوں کی تلاطم لیکر وہ کیسی نیند سلاتے ہیں
میرے انت کی انتہا یہی کسی پرائے کی پرواہ نہ چھو
غیر کے غم کی گھوٹ پیکر لوگ زندہ ہی مرجاتے ہیں