محبتوں کو لیے دل میں وحشتوں کو لیے
تری گلی سے گزرتے ہیں حسرتوں کو لیے
بھلائیں کیسے تری بے رخی کا وہ عالم
گئے تھے در پہ ترے ہم تو چاہتوں کو لیے
چلے ہی جائیں گے اک روز تیرے شہر سے ہم
ترے قہر کو لیے تیری نفرتوں کو لیے
کسی کے غم کا وہ احساس کر نہیں سکتے
جو جی رہے ہیں جہاں میں مسرتوں کو لیے
پڑیں ہیں مشکلیں جب سے جہان ہے دشمن
گزاریے تو کہاں زیست آفتوں کو لیے
سماج اس کو پلائے گا بے حسی کا زہر
جو شخص چاہے گا جینا مروتوں کو لیے
وہ یاد آئے گا تنہائی میں ہمیں زاہد
گو اس کو دل سے بھلا دیں گے زحمتوں کو لیے