گلاب چاندنی راتوں پہ وار آئے ہم
تمہارے ہونٹوں کا صدقہ اتار آئے ہم
وہ ایک جھیل تھی شفاف نیل پانی کی
اور اس میں ڈوب کو خود کو نکھار آئے ہم
ترے ہی لمس سے ان کا خراج ممکن ہے
ترے بغیر جو عمریں گزار آئے ہم
پھر اس گلی سے گزرنا پڑا تری خاطر
پھر اس گلی سے بہت بے قرار آئے ہم
یہ کیا ستم ہے کہ اس نشۂ محبت میں
ترے سوا بھی کسی کو پکار آئے ہم