گل دار درختوں پہ ثمر کیسے ملے گا
گھپ رات اندھیری میں قمر کیسے ملے گا
قسمت بھی مکدر میرا ہمدم نہیں کوئی
ہوتا نہیں مجھ کو تو صبر کیسے ملے گا
اکثر جو مرے خوابوں کو سندر ہے بناتا
وہ جانِ ادا جانِ جگر کیسے ملے گا
بے چین گزرتی ہیں بنا جس کے یہ راتیں
بتلائے کوئی شخص خبر کیسے ملے گا
نا جانے ہوئی کیسی خطا سجدوں کے اندر
دوبارہ دعاوں میں اثر کیسے ملے گا
ہم نے جو لڑکپن میں گنوایا ہے خزینہ
پھر سے وہ خزینہ ء قدر کیسے ملے گا
غربت میں سبھی سوچتے ہیں جعفری لیکن
مفلس کو رقم والا شجر کیسے ملے گا