گل و خوشبو اور چمن کا افسانہ لکھ دوں
تیری صورت کا عکس سارا زمانہ لکھ دوں
لکھنا چاہوں تو صنم سے حرم تک لکھ دوں
مجھ کو ڈر ہے کہ حقیقت کو نہ افسانہ لکھ دوں
ہیرے موتی کی سمندر میں حقیقت لکھ دوں
جو تیری آنکھوں کا انمول خزانہ لکھ دوں
شب وصل بھی اس سناٹے کی اسیر ہوئی
دل نے چاہا تیری زلف کو مرگ بہانہ لکھ دوں
تم ہی منکر ہو جو عداوت میں بٹے ہو لوگوں
ایک آدم سے بھلا کس کس کو بیگانہ لکھ دوں
تیرے بعد میرے در کی یہ حالت ہو گئی
بارہا چاہا اسے میں نے ویرانہ لکھ دوں