گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے
شادمانی کے سُروں میں تھے جو گاتے رات دن
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے
شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے
یار کی بستی میں لٹنا تھا یقینی، پھر بھی ہم
اپنا ذاد عشق لے کر واں لٹانے جا بسے
کھیل تو بختوں کا ہے، پر ہم کہ ٹہرے باغباں
کارزار خشت میں بھی گُل اُگانے جا بسے
خواب پر بھی چھا گی وحشت، ڈرا دیتا ہے اب
خوف سے اظہر کہیں سپنے سہانے جا بسے