گییٔ رُتوں کا جو آ کر حِساب مانگے گا
وہ شخص مجھ سے وفا کے گلاب مانگے گا
اُتر کے آ نہ سکا جو مِرے قریب کبھی
ضیاء اُسی کی مِرا آفتاب مانگے گا
نگل گیۓ جسے افلاس کے گھنے ساۓ
دِلِ حزیں وہ گذشتہ شباب مانگے گا
وہ شخص ہے حسیں رعناییؤں کا دِلدادہ
جو کھلنے والا ہو ایسا گلاب مانگے گا
ہر ایک لفظ میں احساس کی حرارت ہو
ہر آنے والا ہی ایسا نصاب مانگے گا
کتابِ دِل کے ورق پر جو حرف لکھا گیا
اُسی کی روشنی ہر ایک خواب مانگے گا
ہر ایک سوچ کو اِک تازہ رنگ دو عذراؔ
ہر ایک شعر نیا اِنتساب مانگے گا