ہائے ہجر کے صحراؤں میں اِک دِیپ جلا کے بیٹھ گیا
اپنوں کا قافلہ گزرے گا اِک آس لگا کے بیٹھ گیا
ہر رات میری اِس حالت پہ یہ چاند ستارے خوب ہنسے
تری یاد میں روتے روتے خود کو دبا کے بیٹھ گیا
دوپہر ہوئی تو جلن بڑھی میں تنہا اِدھر سے اُدھر گیا
اِس ٹپتے ، جلتے صحرا میں ترا نام بلا کے بیٹھ گیا
پھول کھلے گا چاہت کا کانٹوں سے شرط لگائی تھی
ہائے خزاں کے موسم میں سب کچھ لٹا کے بیٹھ گیا
اشکوں کے نشان نہ ظاہر ہوں ترے غم سہے میں نے چھپ کر
جب رات آئی میری آنگن میں سب دِیپ بجھا کے بیٹھ گیا
ہاتھ میں کاسہ پکڑ لیا پہن لیا لباسِ سائل
جس راہ سے تم چلے گئے اُس راہ پہ جا کے بیٹھ گیا
نہالؔ تجھے میں بھلا دیتا یہ کام بھی میں کر سکتا تھا
مگر تری سب یادوں کو میں تعویز بنا کے بیٹھ گیا