ہاتھ چُھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شِکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتی کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں، تقیسم بھی ہو جاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو
خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے