بزم دیدارے یار سجی، تو اپنے انے کا اعلان تو کر
آنسوے نم سے، خون دل سے، اس کو سجا آتا ہوں
ایک جھلکی کا یقیں مجھ کو کرا دے ساقی
بخدا کچھ نہ کہوں جیسا بھی ہوں دوڑا چلا آتا ہوں
بے سرو ساماں ہوں، مسافر ہوں، تیرے شہر میں دوست
ایک کشتی ہے میرے پاس اس کو جلا آتا ہوں
گو حقیقت نہ سہی، تصور جاناں میں سہی
کچھ تیری انکہی سنتا ہوں کچھ اپنی سنا آتا ہوں
نام لکھتا ہوں تیرا ریت پے سمندر کی
اس کو تکتا ہوں، تڑپتا ہوں، مٹا آتا ہوں
ہاں مجھے ہو گئی، سو محبت ہے، کیے جاتا ہوں
شعر لکھتا ہوں، ناؤ بناتا ہوں، بہا آتا ہوں
روز پیتا ہوں اظہر میں، تجھ سے جدائی کا زہر
بندہ مومن ہوں تو کیوں ہر بار ڈسا جاتا ہوں