ہجر کا وصل کی شب سے ہے گماں تیرے بغیر
پاس ہو کر بھی نہیں تُم ہو یہاں تیرے بغیر
بات مشکل تھی جو آسانی سے کہہ دی تُم نے
ہو نہیں پائی وہ چہرے سے عیاں تیرے بغیر
میں وفاوں پہ تری شک تو نہیں کر سکتی
کوچہٴ غیر میں قدموں کے نشاں ، تیرے بغیر
حال دل اُس کو سنانے کا ارادہ کر کے
کہنے لگتی ہوں، نہیں ہوتا بیاں تیرے بغیر
یوں تو کہتے ہو کہ دوری نہیں حائل کوئی
سات پردوں میں یوں رہتے ہو نہاں،تیرے بغیر
مان لیتی ہوں کہ ہوشمہ ہو موٴحد لیکن
دل میں پھر بھی ہے یہ تصویر بتاں تیرے بغیر