ہر ایک لمحہ ترا انتظار کرتا ہوں
ہے اعتراف کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں
تجھے ہی سوچتا ہوں رات کے سناٹے میں
یوں خود کو تیرے لیے بے قرار کرتا ہوں
تری گلی سے گزرتا ہوں کیسے شوق لیے
نجانے کیوں یہ عمل بار بار کرتا ہوں
یہ ڈر ہے اس کو مری مفلسی نہ کھا جائے
میں تیرے پیار پہ گو اعتبار کرتا ہوں
الجھتا رہتا ہوں پھر ریت کے طوفانوں سے
جو مشکلوں سے سمندر کو پار کرتا ہوں
کیے کرائے پہ ہوتی نہیں نظر میری
میں اپنے ہاتھوں سے اپنا شکار کرتاہوں
مجھے سمجھنے کو کافی ہے شاعری میری
کہ خود کو شعروں میں ہی آشکار کرتا ہوں