ہو ہر بات پہ انکار ضروری نہیں ہوتا
آئے ہر شخص پہ پیار ضروری نہیں ہوتا
یہ نئے دور کے لوگ ہیں احتیاط سے ملنا
ہر دوست ہو غمخوار ضروری نہیں ہوتا
سہہ سہہ کے ستم دل ہو جاتے ہیں پتھر
ہر آنکھ ہو اشکبار ضروری نہیں ہوتا
گھر سے نکل پڑیں تو پھر رکا نہیں کرتے
مگر ہر راہ ہو ہموار ضروری نہیں ہوتا
پھانسی کے تختے پہ چڑھا دیتے ہیں لفظ
سر کو کاٹے تلوار ضروری نہیں ہوتا
مدت سے ہو میرے ساتھ کچھ تو مجھے سمجھو
عثمان ہر بات کا اظہار ضروری نہیں ہوتا