میں نے دریا کو بھی کوزہ میں چھپا رکھا ہے
ہر غم دہر کو سینے سے لگا رکھا ہے
جس کو گل پاش نگاہوں کا امیں کہتے ہو
اس نے ہر ہاتھ میں اک سنگ اٹھا رکھا ہے
تم ستاروں کی ہی چالوں میں ہو الجھے الجھے
ہم نے گر دوں کو بھی ہمسایہ بنا رکھا ہے
روشنی شمس و قمر کی عنایت خا ص نہیں
اک دیا ہر بن مونے جلا رکھا ہے
آتش شوق میں جل جاتے ہیں دل والے
حسن بے پروا نے دیوانہ بنا رکھا ہے
تم تو کہتے ہو کہ حالات بدل جائیں گے
ہم نے خوابوں پہ بھی تکیہ ہی لگا رکھا ہے
تم مری آبلہ پائی سے حراساں کوں ہو
میں نے ہر زخم میں منزل کا پتہ رکھا ہے
جن کی خوشیوں سے بھرا رہتا تھا گلشن میرا
ان کی یادوں کو بھی اس دل سے لگا رکھا ہے
اک ذرا غور سے دیکھو سبھی اپنے ہونگے
جن کو ظلمات کی موجوں نے جدا رکھا ہے
اجنبی شہر میں برکات دیوار کھڑی کرتے ہو
تم نے اپنوں کو بھی اغیار بنا رکھا ہے