ہزاروں دیپ ہیں روشن شباہت یاد آتی ہے
ہوئے ہیں مبتلائے غم عبادت یا د آتی ہے
یہ کس امید پر کاٹی ہمیں معلوم ہی کیا تھا
شب غم کے مقدر میں رفاقت یاد آتی ہے
کہاں جائیں ، کدھر ڈھونڈیں تجھے اے دوست دنیا میں
نجانے آج کس ملک کی ہجرت یاد آتی ہے
خزاں کا دور ہے ہر سو ، ہر اک جانب ہے ویرانی
گئے کیا تم بہاروں کی صداقت یا د آتی ہے
محّبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت یاد آتی ہے
سمٹ کر رہ گئی ہے زندگی ، اب جس طرف دیکھیں
تری یادوں کا پہرا ؎ ،ہے ندامت یا د آتی ہے
میں چاہے جتنی بھو لوں وہ زمانے یاد آتے ہیں
خمار آلود ہ ماضی کی حاجت یاد آتی ہے
وشمہ یاد ماضی بھی مداوا درد حاضر کا
برے حالوں میں اکثر دن محبت یاد آتی ہے