کوئی تو بات تھی تجھ کو کبھی سنائی نہ تھی
یہ ایک بات ترے دل میں کیوں سمائی نہ تھی
شریک جرم تھے میرے وہ سب رہا بھی ہوئے
مرے نصیب میں لیکن کوئی رہائی نہ تھی
ستارے توڑ کے لانے کی جانے ضد کیوں تھی
ہمارے پاس تو ایسی کوئی خدائی نہ تھی
ملا تھا جب بھی وہ الجھا ہوا سا رہتا تھا
کوئی تو بات تھی اب تک ہمیں بتائی نہ تھی
وہی تو شہر میں تھا ایک میرے مطلب کا
ملال تو یہ تھا اس تک مری رسائی نہ تھی
ہمارے پہلو میں کیوں آج آکے بیٹھا تھا
ہماری ذات میں اتنی تو پارسائی نہ تھی
کیوں ایک مصرعہ ترا ارشیؔ جا بجا پہنچا
غزل تو لکھی تھی تو نے مگر سنائی نہ تھی