اس گلشن کو تو اجڑے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
یہاں حالات کو بدلے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
کبھی ہوتے تھے قدموں میں کلیوں کے ڈھیر لیکن
اب خشک پتوں کو اٹھائے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
بڑی تیز آندھیاں چلیں سب کچھ اڑا کر لیں گئیں
آنسو بھی اب بہائے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
آئے بھی تو بڑی دیر سے تم مانگنے روشنی
میرے دل کو تو جلے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
ڈرنا کیا لوٹنے سے بربادی کا خوف کیا
ہم کو تو تباہ ہوئے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
آیا خیال کیسے تجھے زخموں کا آج میرے
مجھے تو یوں تڑپتے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں
پوچھنے آئے ہو ساجد کس سے زمانے کی خبر
ہمیں خود کو ڈھونڈتے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں