ہم بڑی دور سے آئے ہیں ذرا غور کرو
پیار کے ہم بھی ستائے ہیں ذرا غورکرہ
جو زخم تو دیے ہم کو رلانے کے لئے
اب بھی سینے سے لگائے ہیں ذرا غورکرہ
ظلم کی تیز ہوائوں کے طمانچے سہہ کر
خون کے آنسو بہائے ہیں ذرا غور کرو
برسوں ناکام سی چاہت کےلئے شام و سحر
ہم نے ارمان لٹائے ہیں ذرا غور کرو
آج بھی آس کی شمع کو جلانے کے لئے
ہم نے گُل خواب جلائے ہیں ذرا غور کرو
پیارمیں کانٹے تو کانٹےہیں کوئی بات نہیں
زخم پھولوں سے بھی کھائے ہیں ذرا غور کرو
زلفِ جاناں کے تصور میں زمانے گزرے
آج وہ ہم کو بھلائے ہیں ذرا غور کرو
مدتوں وعدوں نے روکا تھا جدائی میں صنم
پھر سے ہم جام اٹھائے ہیں ذرا غور کرو
جعفری جذبہ غم تو نے جو لفظوں میں لکھا
ہم وہی ڈھونڈ کے لائے ہیں ذرا غور کرو