ہم تری یاد کو سینے سے مٹا ہی نہ سکے
اور ترے بعد کوئی اپنا بنا ہی نہ سکے
آنکھیں بیچاری جو ہر بات پہ بھر آتی تھیں
ہم ترے درد کو لوگوں سے چھپا ہی نہ سکے
کوئی کیا کرتا مسیحائ ہماری آ کر
زخمِ دل ہم جو کسی کو بھی دکھا ہی نہ سکے
نیند دیکھی ہی نہیں ہم نے ترے بعد کبھی
بن ترے آنکھوں میں کوئی خواب سجا ہی نہ سکے
بےوفا تجھ کو بھری بزم میں کہہ دے نہ کوئی
داستاں اپنے غموں کی یوں سنا ہی نہ سکے
لوگ کیسے نۓ نت دوست بنا لیتے ہیں
ہم تو اک انس کو مدت سے بھلا ہی نہ سکے
وہ کسی کے بھی نہ جذبات سے کھیلے باقرؔ
رسمِ الفت جو کسی طور نبھا ہی نہ سکے