دردِ ہجر ہنستے ہنستے سہہ گئے
برسات بن کر وصل کے پل بہہ گئے
بیخودی میں ہم سے وہ کیا کہہ گئے
ہم فقط اِک یاد بن کر رہ گئے
پہلے سی کوئی بات ہوئی
نہ ہی ملاقات ہوئی
پہلے سے جزبات ہوئے
نہ ہی وہ حالات ہوئے
برسات بن کر وصل کے پل بہہ گئے
ہم فقط اِک یاد بن کر رہ گئے
وہ جنہیں میری تمنّا تھی کبھی
جو مجھے اپنا سمجھتے تھے کبھی
آشنا سے وہ اچانک کسطرح
اجنبی بن کر سراسر رہ گئے
ہم سے جاتے جاتے اتنا کہہ گئے
تم فقط اِک یاد بن کر رہ گئے
دردِ ہجر ہنستے ہنستے سہہ گئے
برسات بن کر وصل کے پل بہہ گئے
بیخودی میں ہم سے وہ کیا کہہ گئے
ہم فقط اِک یاد بن کر رہ گئے