تیرے نام سے راحت ملی، تُجھ سے مُجھے چاہت ملی
دل میں تیرے پیار کی کلی، تیرے ملنے کے بعد کھلی
تُو ہی مُجھ کو پیارا ہے، تیرے پیار پہ جیون ہارا ہے
اِس بدن پہ، روح پہ، زُلفوں پہ، اب حق صرف تمھارا ہے
میں تیرے لئے ہی جیتی ہوں، میں تیرے لیے مر سکتی ہوں
مُجھ سے کہو اے دلرُبا کیا تیرے لیے کر سکتی ہوں
دل میں تیری باتیں ہیں، فرقت کی لمبی راتیں ہیں
مُجھے پل پل ڈستا رہتا ہے، تیری یادیں بہت ستاتی ہیں
کیوں تُو مُجھ سے یوں دُور ہوا، کیوں ملنے سے مجبور ہوا
کیا برسوں کے بعد تمھارا ملنے کا دستور ہُوا
دل اپنا کس کو دیکھاؤں، زخم اپنے کس کو بتاؤں
سینے سے کس کے لگ کر، زخم اپنے دل کے بتاؤں
ہم سے ہوئی خطا ہے کیا؟ ہم نے کی جفا ہے کیا ؟
ہم میں کچھ کمی ہے یا پھر تُو بدل گیا ہے کیا ؟
وہ انتہا کدھر گئی، دیوانگی کدھر گئی
وہ اِک میرے دیدار کو، بیتابیئِ دل کدھر گئی